پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن اور نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا، ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔
قائداعظم کا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اجلاس سے خطاب 8 مارچ 1944
قائداعظم کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ برصغیر میں جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو دراصل وہ ایک قوم سے نکل سے دوسری کا فرد بن گیا اور اسی دن سے برصغیر پاک و ہند میں دو قومیں وجود میں آگئی تھیں۔ ایک ہندو اور دوسری مسلمان ۔ ہندو اور مسلمان کی علیحدہ قومیت کا یہی تصور مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان کا محرک تھا اور یہی تصور 23مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مینار پاکستان میں ایک قراد داد کی صورت میں پیش کیا گیا جس کو قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔
دو قومی نظریہ
سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ دو قومی نظریہ کیا ہے یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان ہزاروں سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود مذہبی، معاشرتی اور تقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہیں اور وہ کبھی بھی ایک قومیت نہیں رہے اس بات کو یوں سمجھئے کہ ہندو اور مسلمان ایک ندی کے دو کنارے ہیں جو ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اور انگریزوں کے دور اقتدار سے قبل ہندو اور مسلمانوں تقریبا ہزار سال یعنی دس صدیاں ساتھ رہے ان دس صدیوں میں مسلمانوں کے یہاں حکمرانی کی، مسلمان حکمرانوں کے عمومی طور پر ہندووں کے ساتھ انتہائی اچھا، مشفقانہ اور ہمدادانہ رویہ رکھا۔
محمد بن قاسم
آریہ سماج تحریک
یہ تحریک 1875 میں انگریزوں کے زیر سایہ پروان چڑھی یہ ایک سخت گیر اور ہندو انتہا پسندانہ تحریک تھی جس کے تحت ہندووں کو غیر ہندووں سے جدا کر کے اپنے مذہب پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی، اس بناء پر ہندو قوم کے لوگ از خود مسلمانوں سے دور ہوتے چلے گئے
گئورکھشا تحریک
یہ تحریک 1882 میں شروع کی گئی تھی، آریہ سماج تحریک اور گئورکھشا تحریک، دونوں ہی ممبئی کے رہنے والے سوامی دیا نندا سرسوتی نے شروع کی تھیں۔ اس تحریک میں گئوماتا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تعصب پیلا گیا تھا، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ گئورکھشا تحریک مختلف اشکال میں آچ تک جاری ہے۔ کہیں گئو ماتا کے نام پر ، کہیں گئوشالہ کے نام پر، کہیں گئو رکھشا کے نام پر، مسلمانوں نے ہزار سالہ دور میں ہندووں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی اور اس کا صلہ یہ ہے کہ بھارت کے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں پر گائے کی قربانی کی پابندی ہے اور مسلمان عیدالاضحٰی پر گائے کی قربانی نہیں کرسکتے
شدھی تحریک
یہ تحریک بھی متعصب ہندووں سوامی دیانندا سرسوتی اور اس کے شاگرد سوامی شردانند کی جانب سے 1920 میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحریک کے تحت غیر مسلموں بالخصوص مسلماںوں کو جبری طور پر اپنا مذہب تبدیل کر کے ہندو مت داخل کرنے کی تحریک چلائی گئی۔ ہندو مسلم اتحاد کی باتیں کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہۓ کہ انڈیا میں شدھی تحریک بانی سوامی شردھا نند کو ایک ہیرو کی حیثیت دی جاتی ہے اور انڈین گورنمنٹ نے ان کے ڈاک ٹکٹ بھی جارے کئے ہیں
ایک جانب یہ ہندووں کا انتہاپسنانہ اور متعصبانہ رویہ تھا دوسری جانب انگریزوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ انہوں نے حکومت ہندووں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے چھینی ہے اس لئے منطقی طور پر ان کو مخالفت کا سامنا بھی مسلمانوں کی جانب سے زیادہ تھا اگرچہ ابتداء میں ہندووں نے بھی انگریزوں کے خلاف تحریک میں حصہ لیا لیکن بعد ازاں انگریزوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندووں کو میدان ہو یا سیاسی میدان الغرض ہر جگہ مسلمانوں کو دبایا جاتا رہا اور ہندووں کو زیادہ سپورٹ کیا جاتا رہا۔
یہی وہ حالات تھے جن کے باعث برصغیر کے مسلمانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اہم ایک ہزار سال تک بھی ہندووں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے باوجود ان کے نفرت اور تعصب کا نشانہ بن رہے ہیں اور ہندو اور مسلمان ;ہمیشہ دو الگ الگ قومیں تھیں، ہیں اور الگ ہی رہیں گی۔ ان کو کبھی بھی ایک قوم سمجھنا سخت غلطی ہوگی۔ اسی باعث دو قومی نظریے نے جنم لیا۔ 23 مارچ 1940 کو تو دراصل برصغیر کے مسلمانوں نے سیاسی طور پر دو قومی نظریے کا اعلان کر دیا ورنہ درحقیت تو مسلمان دو قومی نظریے کو بہت پہلے تسلیم کر چکے تھے۔ذیل میں ہم اس حوالے سے کچھ مسلمان اقابرین کے کچھ اقوال پیش کرتے ہیں
سر سید احمد خاں
سر سید احمد خاں وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے دو قومی نظرئیے کا اعلان کیا۔ 1967 میں سر سید احمد خاں نے ایک موقع پر یہ فرمایہ کہ "برصغیر میں دو بڑی قومیں آباد ہیں۔ ہندو اور مسلمان" انہوں نے یہ بھی فرمایہ کہ "ہندوستان ایک ملک نہیں یہ ایک براعظم ہے اور یہاں مختلف نسلوں اور مختل روایات کے لوگ آباد ہیں"
مولانا عبدالحلیم شرر
معروف ادیب، افسانہ نگار، صاحب طرز قلم کار مولانا عبدالخلیم شرر نے 1890 میں کہا تھا کہ " بہتر ہوگا کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلمان صوبوں میں تقسیم کر کے تبادلہ آبادی کر لیا جائے"
مولانا محمد علی جوہر
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو اور مجاہد مولانا محمد علی جوہر نے 1911 میں ارشاد فرمایا تھا کہ " ہم متحد ہندوستا پر یقین نہیں رکھتے، یہ سہولت کی شادی ہے جو پروقار طریقے پر ہو سکتیے ہے اور اسے پروقار انداز میں برقرار رکھا جا سکتا ہے"
علیحدہ ریاست کا تصور
ایک طرف دو قومی نظریئے کے بارے میں مسلمان زعماء کے یہ رائے تھی اس کے ساتھ ہی 29 دسمبر 1930 میں علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا اور یہ تصور سیکولر یا محض ایک مملکت کا نہیں بکہ اسلامی مملکت کا تصور تھا یہاں ان کے صدارتی خطاب کے کچھ اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں آپ نے فرمایا کہ "جس شخص کو آپ نے آج آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے اعزاز سے نوازا ہے وہ اب بھی اسلام کو ایک زندہ طاقت سمجھتا ہے وہ طاقت جو انسانوں کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے نجات دلاسکتی ہے ۔ اسلام ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوچنا ہمیں یہ ہے کہ فی الواقعہ مذہب ہمارہ ذاتی معاملہ ہے؟ اور کیا ہم اسے ذاتی معاملہ قرار دے کر اسلام کو بھی سیاسی و اخلاقی نصب العین میں اس منزل پر پنیچانا چاہتے ہیں جو قبل ازیں مغرب مسیحیت کے ساتھ ہو چکا ہے؟ دوسری صورت یہ ہے اگر ہم اسلام کو بدستور اخلاقی تحیل کے طور پر رہنے دیں مگر اسلامی نظام سیاست جگی کسی قومی نظام کو اپنا لیں جس کے تحت مذہب درمیان میں نہ ہو تو کیا یہ ممکن ہے؟
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں کچھ اور آگے جانا چاہتا ہوں میں تو چاہتا ہوں کہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستا کو ایک ریاست کی صورت دیدی جائے، چاہے پھر یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر ہی اپنی خود مختار حکومت قیام عمل میں لائے یا اس سے باہر! مگر میرا احساس ہے کہ آخر کار شمال مغربی ہندوستاں کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ اسلامی ریاست لازما قائم کرنی پڑے گے۔۔۔۔۔ ہندووں کو یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہئے کہ آزاد اسلامی ریاستیں قائم ہو گئیں تو مذہبی حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا، اسلام میں مذہب کا وہ مفہوم نہیں جو ہندو سمجھتے ہیں اسلام ایک ریاست ہے، کلیسائی نظام ہرگز نہیں۔ اسلامی ریاست کا دارومدار اخلاقی نصف العین پر ہوتا ہے
یہاں ہم نے آپ کے سامنے ہندو رہمناؤں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دورانیہ اور مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کے خلاف مختلف ادوار میں چلنے میں تحریکوں کا مختصر احوال بیان کیا اس کے ساتھ ساتھ ہی اس کے رد عمل میں مسلمانوں کے اند جو سوچ پیدا ہوئی اور دو قومی نظریے کا خیال اجاگر ہوا وہ بھی آُ کے سامنے پیش کیا۔ اب ہم بات کریں گے 1940 کے آؒ انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی جس میں دو قومی نظریئے کا باقاعدہ تصور پیش کیا گیا۔ 21 مارچ کی شام کو اس اجلاس کا آغاز ہوا اور 22 مارچ کو قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران واضح طور پر فرمایا کہ "اس امر کی وضاحت کرنا ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو ازم کی حقیقی صورت حال اور حقیقت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں، ایک بڑا مشکل امر ہے۔ میرے خیال میں یہ دونوں کسی قطعی اعتبار سے اور لغوی اعتبار سے مذہب نہیں ہیں لیکن در حقیقت یہ سماجی اور معاشرتی ضوابط ہیں اور یہ محض کہ ہندو اور مسلمان کوئی ایک قومیت بنا سکیں گے اور یہ غلط فہمی اب قصہ پارینہ ثابت ہو چکی ہے ، یہ نہیں بکلہ یہ غلط فہمی ۔۔۔۔۔ تمہارے لیے کئی طرح کی مشکلات کا موجب بنی ہوئی ہے اور یاد رکھیں کہ یہ غلط فہمی ہندوستان کو تبادی تک پہنچا دے گئی۔ اگر ہم اس غلط فہمی کو دور کرنے سے قاصر رہے اور اپنے ان خیالات میں تبدیلی نہ لا سکے تو تباہی لازمی ہوگی۔
ہندو اور مسلمان دو جداگانہ مذہبی فلسفوں، سماجی رسوم رواج اور علمی ادبی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ تو وہ آپس میں شادی کرسکتے ہیں اور نہ ہی مل کر کھا سکتے ہیں۔ درحقیقت وہ دونوں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تہاذیب کے افکار و نظریات بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ذندگی اور زندہ رہنے کے بارے میں دونوں کے نظریات دیکر پہلو ایک سے دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو مسلمان تاریخ کے مختلف شعبوں اور ذرائع سے اکتساب کرتے ہیں۔ دونوں کی رزمیہ تاریخ مختلف ہے، دونوں کے ہیرو مختلف ہیں دونوں کے حالات و واقعات بھی مختلف ہیں، بکلہ یہاں تک کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن اور ایک قوم کا دشمن دوسری قوم کا پیرو ہوتا ہے۔ دونوں ایک کی شکست دوسرے کی فتح اور ایک کی فتح کو دوسرے کی شکست ہوتی ہے۔ ایسی دو قوموں کو کسی ایک ہی سلطنت میں کر دینا کہ جن میں ایک تو عددی اقلیت میں ہو اور دوسری واضح اکثریت میں، اس کا نتیجہ لامحالہ بے سکونی، ابتری، اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا۔ ان دونوں کے لئے کسی بھی وضع کی حکومت بنادی جائے اس کا نتیجہ یہی بر آمد ہوگا۔۔۔۔ مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں اس کے لئے چاہے قوم کی کوئی بھی تعریف کی جائے، اس کے تحت یہ ایک قوم ہیں، اس لئے ان کا اپنا ایک وطن ہونا چاہئے، اس کا اپنا ایک علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے
قراد داد پاکستان
قراداد لاہور 23 مارچ کو پیش کی گئی جسے قراد داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔ شیر بنگال ابوالقسیم مولوی فضل الحق نے یہ قرار داد پیش کی
آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غور فکر کے بعد اس ملک صرف ای آئین کو قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول قرار دیات ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم تصل ریجنوں کی صورت میں حد بندی کا حامل ہو اور بوقت ضرورت ان میں اس طرح رد وبدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثیرت بہ اعتبار تعداد ہو انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کر دیا جئے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خود مختار اور حاکمیت کی حامل ہوں
ان وحدتوں اور ہر علاقائی آئین میں اقلیتوں کے مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مفادات اور حقوق کے تحفظ کی خاطر ایسی اقلیتوں سے مشورے کے بعد موثر تحفظات شامل ہوں اور ہندوستان کے ان تمام حصوں میں جہاں مسلمان آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں نہیں، تحفظ کا یقین دلایا جائے
یہ اجلاس مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ ان اصولوں پر مبنی آئین کا لائحہ عمل مرتب کریں جس میں دونوں خطوں کے تمام اختیارات اور دیگر اہم امور کو سنھبالنے کا انتظام کیا جائے
یہ قرار داد پیش ہونے کے بعد چوہدری خلیق الزمان نے سب سے پہلے اس کی تائید و حمایت کی، ان کے بعد مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خان، سر حاجی عبداللہ ہاروں، نواب اسمعٰیل خان، قاضی محمد عیسٰی اور آئی آئی چندرگر نے بھی اس قرار داد کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس اجلاس اور قرار داد کے بعد قیام پاکستان کے مسلمانوں کی جدوجہد کو واضح شکل دیدی گئی اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں تیزی آتی گئی اور بالآخر 14 اگست 1947 کو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی مملکت "پاکستان" کا قیام عمل میں آیا۔
Majid Ali